شیخ طریقت حضرت مو لانا مفتی وقار الدین قادری رحمت اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث دار العلوم امجدیہ۔۔ شمس جیلانی

حضرت مو لانا مفتی وقارالدین صا حب یکم جولائی١٩١٥ءمیں مو ضع پو ٹاکھمریا ضلع پیلی بھیت یو پی میں قؤم ارایں کے ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہو ئے جو کہ کئی مو اضعات کا مالک تھا۔ ان کے والد کا اسم گرامی حمید الدین تھا جن کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن کے نام امین الدین ،تا ج الدین، وقار الدین اور صغیر الدین تھے۔ حضرت مو لانا وقار الدین صا حب کا نمبر اپنے بھا ئیو ں میں تیسرا تھا۔ ان کے والد نے تین بچو ں کو انگریزی تعلیم سے آرا ستہ کیا امین الدین صا حب ، تا ج الدین صا حب نے ریلوے میں ملا زمت اختیار کی اور صغیر الدین صاحب فو ج میں چلے گئے۔ چارو ں صاحبزادوں کا انتقا ل کراچی میں ہوا اور وہیں آسودہ خا ک ہیں ۔ جبکہ حضرت مو لانامرحوم کا رجحان شروع سے ہی دین کی طر ف تھا۔ لہذاان کے والد نے جو خود بھی ایک مذہبی آدمی تھے۔ ان کی خواہش کا احترام کر تے ہو ئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا صا حب مر حوم کے قائم کر دہ مدرسہ میں جو کہ بی بی جی مسجد بریلی میں قائم تھا اور اسوقت تک ایک بڑی در سگاہ بن چکا تھا ، اس میں ان کوبرائے دینی تعلیم دا خل کر ادیا۔ وہاں سے انہو ں نے دستار فضیلت جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے١٩٤٤ ءمیں حاصل کی اور اس کے بعد وہیں در س دینے لگے۔ اسوقت وہاں حضرت مو لانا سردار احمد صا حب( حال وارد فیصل آباد ) انچا رج تھے ۔ یہ سلسلہ ١٩٤٧تک جاری رہا ۔ پاکستان بننے کے بعد وہ نرا ئن گنج( ڈھاکہ )ہجرت فر ما گئے پھر چٹا گانگ میں اپنا دار العلوم قائم فر ما یا اور ایک اچھی خا صی تعداد طالب علموں کی اپنے گرد جمع کر لی جو کہ دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں سے تجا وز کر گئی۔ چو نکہ انکو چار و ں سلسلوں سے خر قہ ِخلا فت ملے ہو ئے تھے۔ لہذا وہاں انہو ں نے اچھے خا صے مر ید بھی بنا ئے۔ کیو نکہ وہاں اسکی ضرورت بھی اسلیئے تھی کہ جہا لت اتنی  بڑھی ہوئی تھی کہ علم ِدین نہ ہو نے کے برا بر تھا۔ ہندوستان سے سال کے سال علما ءصا حبان تشریف لا تے اور اپنا بھتہ وصول کر کے واپس چلے جا تے۔ لو گوں کو فا تحہ دینا اور نماز ِ جنازہ پڑھانابھی نہیں آتی تھی۔جو تھوڑی بہت شد بدھ رکھتے تھے، وہ رقم لیکر نماز ِ جنازہ پڑھاتے تھے۔ لہذا جہاں لا وارث میتوں کے کفن دفن کے لیئے چندہ ہو تا تھا وہیں مولویصاحب کی فیس بھی نماز جنازہ پڑھا نے کی مد میں چندے میںشامل ہوتی تھی۔

فاتحہ کے لیئے اکثر ں نذرانہ دیکر جس کی جنتی گنجا ئش ہو تی ایک سال دو سال کی فا تحہ ایک بو تل میں پانی بھر کر پھُنکوا لیتا۔اور جب فا تحہ دلانا ہو تی تو اس میں سے چند قطرے ٹپکا دئے جاتے اور فا تحہ ہو جاتی۔ سب سے زیادہ پڑھا لکھا ضلع نوا کھا لی کا سمجھا جا تا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہا ں گیارہ لا کھ آبادی ہے اور اس میں سے پانچ لا کھ مولوی ہیں ۔ وہ واحد ضلع تھا جو علما ءکے معاملے میں خود کفیل تھا۔ ان کے علم کے معیار کااندا زہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کشور گنج ضلع میمن سنگھ میں میرے پاس ایک ملا زم نوا کھالی کا تھا۔ رمضان آگئے میں نے اس سے پو چھا نظام الدین تم قر آن کی تلاوت نہیں کر تے؟ تو اس نے جواب دیا کہ اگر میں قر آن پڑھا ہوا ہوتا تو یہا ں کیو ں آتا ،اپنے ہا ں کی کسی مسجد میں مو لوی نہ لگ جاتا۔ اس وقت وہاں علما ءمیں ایک ہی مشہو ر نام تھا جو کہ دیو بند کے فارغ التحصیل تھے ۔ ان کا نام تھا مو لانا اطہر علی جو کشور گنج میں رہتے تھے اور انکا دار العلوم بھی تھا۔ جو بعد میں نظامِ اسلام پا رٹی کے بانی بنے ۔یہ صورت حا ل تھی جب حضرت مو لا نا مفتی وقار الدین صا حب نے وہاں علم کا چشمہ جا ری کیا ۔ وہاں آپ اکثر لوگوں کے نام کے ساتھ مو لوی لکھا دیکھیں گے، مگر اس سے آپ ان کو دینی عالم نہ قیا س فر ما لیں۔ کیو نکہ یو پی اور بنگا ل میں مسلما ن وکیلو ں کو بھی مولوی صاحب کہا جا تا تھا ۔اس لیئے کہ وہ شریعت کا قانون پڑھے ہو ئے ہو تے تھے، اور عدالتو ں میں ور اثت، طلا ق وغیرہ کے مسلما نوں کے مقد ما ت لڑتے تھے۔

 مو لا نا مفتی وقار الدین صا حب وہاں تئیس چو بیس سال تک علم کے در یا بہا تے رہے اور اس دوران ، چرا غ سے چراغ جلا کر بہت سے عالم اور مدرسے قائم کر دیئے حتیٰ کہ مشرقی پا کستان میں بے چینی پیدا ہو ئی اور ان کے شا گردوں نے یہ را ئے دی کہ اب آپ کا یہا ں رہنا مناسب نہیں ہے۔ مگر مو لانا کو اپنے مشن سے عشق تھا لہذا انہوں نے پہلے تو ان کا مشورہ نہیں مانا۔ اور شدت سے مخالفت کی مگر ایک دن نہ جانے کیا ہوا کہ صبح کو جب سو کر اٹھے تو فر مانے لگے ۔ میں نے  مغربی پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ جو انکے عقیدتمند تھے انہو ں نے اخذ کر لیا کہ حضرت کا یہ فیصلہ کوئی راز رکھتا ہے اور شاید مشرفی پاکستان پر کو ئی بڑی تبا ہی آنے والی ہے ۔ وہاں کی در سگاہ آپ نے شاگرد وں کے سپرد کی خود چلے آئے ۔ انکے شا گردوں کو دکھ تو بہت ہوا مگر انہوں نے تعرض اس لیئے نہیں کیاکہ وہاں اس سے پہلے جن لوگوں کی پاکستان بننے سے پہلے اجا رہ داری تھی۔ وہ ان کی جان کے درپے تھے۔ کہ انہوں نے علم کو عام کر کے ان کا کاروبار خراب کر دیا ، شاگردوں کو خطرہ یہ تھا کہ اس بد امنی کا فا ئدہ اٹھا کر وہ کہیں ان کو نقصان نہ پہو نچا ئیں ۔

یہا ں آکر دستگیر میں انہو ں نے ایکسو بیس گز کا ایک پلا ٹ خرید لیا۔ اسوقت اسکی قیمت صرف سات سو پچاس روپیہ تھی وہ بھی چار اقساط میں اور پھر اس پر دو کمروں کا مکان بنا لیا، جس میں وہ تا حیات رہتے رہے ۔ کیونکہ وہ انتہائی قنا عت پسند انسان تھے۔ ایک زمانے میں ضیا ءالحق نے بہت سے علما ءکو اسلام آباد میں پلا ٹ بانٹے اور انہوں نے بیچ کر پیسے بھی بنا ئے ۔وہ اس وقت رویت ِ ہلال کمیٹی کے متعلق تھے مگر انہوں نے نہ لیا اور کمیٹی کی رکنیت بھی جب اس نے بغیر چاند دیکھے پو رے ملک میں عید کروانے کا حکم دیا، تو اس کے منہ پر ما ر کر چلے آئے۔

 سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بہت سے لوگ لا پتہ ہو گئے تھے ۔یا جمع پونجی کہیں دبا کر مر گئے تھے، جس کی ورثا کو خبر نہیں تھی۔ مو لانا ایک تعویز ان کو عطا فر ما تے جو کہ ایک چو زے کے پیر میں باند ھنا ہوتا اور اس کو جب وہاں چھو ڑا جا تا تو وہ دفینے پر جا کر کھڑا ہو جا تا۔ اس طر ح بہت سے دفینے ورثا کو پہنچا ئے ،مگر خود کسی سے کچھ نہ لیتے تلاش گم شد گان میں بھی انہوں نے لو گوں کی اپنے علم سے کا فی مدد فر مائی ۔ اور چھوٹی چھو ٹی کرا مات تو اتنی ہیں کہ اس کے لیئے ایک الگ کتاب چا ہیئے ۔

یہاں جب وہ مشرقی پاکستان سے تشریف لا ئے تو مو لا نا ظفر علی نعمانی مرحوم دا ر العلوم امجدیہ کے مہتمم تھے جوکہ ان کے بڑے معتقد تھے ۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک مر تبہ اس خاکسار سے پو چھا کہ کیا آپ لوگ بھی ان کی اتنی ہی عزت کرتے ہیں، جتنی ہم کر تے ہیں۔ تو راقم نے جواب دیا کہ الحمد للہ ہم لوگ ان کی آپ سے زیادہ عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ میں ان کے علمی مقام سے تو واقف تھا ۔مگر اس سے واقف نہ تھا کہ وہ اپنے دور کے قطب بھی ہیں ۔ بعد میں نعمانی صاحب نے مولانا سے در خواست کی اب وہا ں تو آپ کا واپس جا نا مشکل دکھا ئی دیتا ہے۔ آپ علم کی روشنی یہا ں پھیلا ئیے اور وہ دار العلوم امجدیہ سے منسلک ہو گئے پھر آخری دم تک وہیں در س و تدریس کے ذریعہ دارالعلوم امجدیہ کی خد مت کرتے اور علم کی رو شنی پھیلا تے رہے۔ الحمد اللہ یہا ں بھی ان کے شاگردوں کی تعداد ہزارو ں میں ہے ۔مگریہاں ان کے مریدین کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔نہ جانے کیوں وہ یہاں آنے کے بعد مرید بنا نے میں بڑے محتا ط ہو گئے تھے اور بڑی مشکل سے کسی کو مر ید بنا تے تھے ۔ مغربی پاکستان ہجرت کرنا مو لا نا کے خاندان کی یہ چو تھی ہجرت تھی۔ پہلی وہ جب کے ان کے آبا و اجداد یمن سے آکر سر سہ(مشرقی پنجاب) میں آباد ہو ئے ،دوسری جب کھمر یا میں سر سہ سے آکر آبا د ہو ئے اور تیسری مشرقی پاکستان تشریف لا ئے اور چھو تھی یہ یعنی کراچی آمد۔ سرسہ سے ان کے جد امجد جناب دوست محمد صا حب وہاں پر ١٧٨٠ءمیں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ان کا شجرہ نسب اس طر ح ہے ۔ وقار الدین ابن ِ حمید الدین ابن ِ فخر الدین ابن ِ محمد یو سف ابن ِحسن محمد ابن ِ شاہ محمد ابن دوست محمد۔اس سے آگے کاشجرہ نہیں ملتا ۔مگر محشر انبا لوی مرحوم کے مطابق قبیلہ آل ِ ذور عین جس کے وہ فرد تھے حارس الرا ئش کے زمانے میں یمن سے آکر پنجاب میں آبادہو ا تھا۔

 راقم حروف کا ان سے بہت ہی پرا نا رشتہ تھا در اصل کھمریا جس کا میں نے ذکر کیا ہے، وہا ں سے میری پر دادی میری والدہ اور میری بیوی اور ایک بہو کا وہیں سے تعلق تھا۔ اور ان کے برادر ِ حقیقی تاج الدین صا حب میرے حقیقی خا لو تھے۔ اس کے بعد ان کے بھتیجے ،ہما یوں تاج میرے داماد اور پھر میری چھو ٹی بیٹی عظمٰی کی ان کے صا حبزادے جمیل وقار کے ساتھ شادی ہو ئی اور اس کے بعد میرے چھو ٹے بھا ئی اظہر کمال سے جو کے آجکل جد ہ میں ہیں ان کی صا حبزادی نگہت کی شادی ہو ئی اور بھتیجے نیر وقار کی میری بھانجی حنا سے شادی ہو ئی ۔ان رشتوں کی بناپر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں نے انہیں کتنے قریب سے دیکھا ہو گا ۔

 نہ جا نے کیا با ت تھی کہ وہ شروع سے ہی مجھے اور میری بیوی کو بہت ہی پسند فر ما تے تھے اور ہمیشہ میرے بتا ئے ہو ئے دینی مسائل کی درستگی کی تو ثیق فر ماتے تھے ۔لیکن مجھے ان کے زیادہ قریب آنے کا مو قعہ جب ملا جبکہ میں نے ١٩٧٤ ءمیں تعلیم کی وجہ سے بچو ں کو میر پور خا ص سے کراچی منتقل کردیا اور اپنے خا لو تاج الدین صا حب کی کوٹھی کرا یہ پر لی، کیو نکہ انکے کنیڈا چلے جانے کی وجہ سے مو لانا ان کے مختار ِ عام تھے لہذا مجھے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ آدمی چونکہ لین دین سے ہی پر کھا جا تا ہے۔ میں نے انہیں قریب سے دیکھا اور مجھے انہوں نے پر کھا اور رات ،دن ہم میں محبت بڑھتی گئی ۔ جبکہ اسوقت تک یہ سارے رشتے نہ تھے صرف وہی ایک رشتہ تھا کہ وہ خالو کے بھا ئی تھے ۔ باقی رشتے انہیں کی پسندیدگی کی بنا پر بعد میں طے پا ئے ۔لیکن ان رشتوں سے بھی پہلے وہ رو حانی رشتہ قائم قائم ہو ا کہ مجھے ان سے شر ف ِ بیعت حا صل ہو گیا۔

 قصہ یوں ہے کہ مجھے اللہ نے بچپن سے تھوڑا سا نوا زا ہوا تھا جس کی ابتدا ءیہ تھی کہ میں جب پیدا ہو ا تو میرے نا نا فدا حسین صاحب نے حضرت مہر بان علی شا ہ (رح) اکو ڑہ خٹک والو ں سے در خواست کی کہ اس بچے کا نام رکھد یجئے جوکہ میری پیدا ئش پر خو ش قسمتی سے وہاں موجود تھے۔ تو انہو ں نے میرا نام محمد شمس الدین جیلانی رکھا۔ لو گو ں نے کہا اس نام کے لو گ بڑے جلا لی ہو تے ہیں،تو انہوں نے فر ما یا کہ اس کا نام توتبدیل نہیں ہو سکتا، البتہ آپ احمد لگا لیں تو جمالی ہو جا ئے گا ۔ لہذا میرا نام اس زمانہ کے رواج کے مطابق محمد شمس الدین احمد جیلانی رکھا گیا۔ پھر جب میں نے اپنی ادبی زندگی میں قدم رکھا ،تو میں نے حضرت عبد القادر جیلانی سے عقیدت کی بنا پرادبی نام شمس جیلانی اختیار کر لیا۔ یقیقنا ًیہ اس نام کی بر کت تھی کہ وہی مشہور ہوا اور اب سب اسی نام سے جا نتے ہیں ۔جیسا  کہ میں پہلے عرض کر چکا ہو ں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا شروع سے ہی میرے اوپر کر م تھا کہ اس نے ایک ہدا یت یافتہ زندگی عطا فر ما ئی جس میں میری نا نی کی تربیت کا بڑا دخل تھا کہ وہ خود ایک ولی صفت خاتون تھیں میرے کانوں میں انکی میٹھی آواز ہمیشہ رس گھولتی رہتی تھی کہ حضور (ص) ایسا کرتے تھے اور تم بھی ویسا ہی  کیاکرو۔ میں نے کو شش کی ،اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نوازا اور میں نے کچھ مراحل جوانی تک حضرت مہر علی شاہ  (رح)کی رہنما ئی میں ہی طے کیئے جبکہ انکا وصال اس وقت ہو گیا تھا جبکہ میں سا ڑھے چار سال کا تھا۔ اس کے بعد رہنما بدلتے رہے جن کی میں تفصیل میں جانا منا سب نہیں سمجھتا۔  مگر جیسے کہ بض پیغمروں  (ع)تک کی یہ خوا ہش رہی ہے،کہ کچھ اپنی ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھیں، میری بھی یہ خوا ہش تھی کہ میں بھی بظاہر کسی سے بیعت ہو جا ؤ ں۔ مر د حق کی تلا ش میں ہر ایک کے پیچھے بھا گتا پھرا،مگر ہر جگہ ما یو سی ہوئی۔ کہ میں ان میں وہ معیار ڈھو نڈتا تھا جو حضرت عبد القادرجیلانی  (رح)نے بتا یا ہے کہ ًاگر کو ئی آسمان پر بھی اڑتا ہو پانی پر چلتا ہو ۔ مگر اس کی ایک حرکت بھی خلاف سنت ہو۔ تو وہ پیر نہیں ہو سکتا، شیطان ہے“ قصہ مختصر وہ ایک تشنگی تھی جو باقی تھی کہ مجھے عار ضہ قلب لا حق ہوا ۔ میں اب سوچنے لگا کہ مجھے شاید کوئی بھی نہیں ملے گا؟کیو نکہ اس تلاش میں میری عمرپچاس سال سے تجاوز کر چکی تھی اور ابھی تک کو ئی بھی مر د ِ حق نہیں ملا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں یہ حسرت ساتھ ہی لیئے چلا جا ؤ ں گا ۔ میں نے ایک دن بہت ہی گڑگڑا کر خدا سے دعامانگی کہ یا اللہ تونے میری ہر خواہش پوری فرما ئی میری یہ خواہش بھی پو ری فر ما دے ۔ چو نکہ آج تک الحمد للہ میری کو ئی خوا ہش اللہ تعا لیٰ نے رد نہیں فر ما ئی، وہ جلد یا بدیر پوری ضرور ہو ئی ۔لہذا اس کی رحمت جوش میں آگئی اور مجھے رہنما ئی ملی ، میں حیرت زدہ رہ گیا کہ میں گھر میں بہتا سمندر چھو ڑ کر ادھر ، ادھر دریا ڈھو نڈتا پھررہا تھا ۔ صبح ہو ئی تو میں نے پہلا کام یہ کیا کہ مو لانا کو فون کیا ۔ میں ان کے معمو لات سے واقف تھا کہ وہ صبح کو جلدی اٹھ جا تے ہیں اور پھر معمولات سے فارغ ہوکر دارالعلوم تشریف لے جا تے ہیں ۔ چو نکہ وفورِ شو ق غالب تھا، میں نے فون کرنے میں بہت ہی جلدی کردی، مو لانا کی آواز سنا ئی دی، حیرت سے انہوں نے پو چھا خیر تو ہے اتنے صبح ہی صبح ؟ میں عرض کیا کہ میں آپ سے بیعت ہو نا چاہتا ہوں ۔ جو کہ قر بت کی بنا پر میں سمجھ رہا تھا کہ بہت معمو لی سی بات ہے ،وہ فر ما ئیں گے آجا ؤاور بات ختم۔ مگر جواب نے مجھے حیرت میں ڈالدیا ،فر مانے لگے میں تو اب کسی کو بیعت نہیں کر تا ہوں ۔ میں نے ضد کی، فر مایا اچھا میں کل بتا ؤنگا ۔ اب دوسرے دن میں ابھی منتظر ہی تھا کہ صبح ہوتو میں ان سے پو چھوں کہ کیا حکم ہے؟ مگر فون کی گھنٹی بجی اور دوسری طر ف مو لا نا تھے ، اب میری متحیر ہو نے کی با ری تھی ۔ فر ما رہے تھے کہ میں تمہیں خود بیعت کر نے آرہا ہوں؟ میں نے کہا نہیں ، میں حا ضر ہو تا ہوں کہ یہ آداب مریدی کے خلاف ہے فر ما نے لگے ۔نہیں تم بیمار ہو میں آتا ہوں ۔میں نے کہا نہیں آپ وہیں انتظا ر فر ما ئیے، میں پہو نچ رہا ہو ں ۔میں پہو نچا تو مو لا نا مصلے پر تشریف فر ما تھے ۔جو میرا حصہ مجھے دکھا یا گیا تھا، وہ وہاں رکھا ہوا تھا، پو چھا کس سلسلہ میں بیعت ہو نا چا ہتے ہو  ؟میں نے عرض کیا سلسلہ قادریہ میں ، ہنس کر فر ما نے لگے کیوں اس لیئے کہ اس میں حضرت عبد القادر جیلانی (رح) ہیں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یہ ہی وجہ ہے اگر آپ مہر بانی فر ما ئیں تو ان سے با قاعدہ نسبت قائم ہو جا ئے۔ انہو ں نے ا س چیز کو شہادت کی انگلی اور انگو ٹھے اٹھایا ،نصف دانتوں سے کا ٹ کر خود تنا ول فر ما ئی، با قی بچی ہوئی میرے منہ میں دیدی اور مجھ سے بعیت لے لی ۔حالانکہ وہ اس کے بعد اٹھارہ سال حیات رہے ،مگر نہ انہوں نے کبھی خلا فت کی با ت کی نہ میں نے ما نگی ، شاید یہ میرا مقدر نہ تھا اور اللہ کو مجھ سے وہ کام نہیں کو ئی دوسر کام  لینا تھا؟ نہ مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ یہا ں بھی وہی مسئلہ پھر میرے آڑے آیا کہ حضرت عبد القادر جیلانی (رح) نے فر ما یا کہ کبھی کسی مر تبہ کی خود خواہش مت کرو ،اگر وہ خو د عطا فر ما ئے گا تو صلا حیت بھی دے گا۔تم ما نگو گے تو ممکن ہے تمہیں نبھا نا مشکل ہو جا ئے ۔وقت گزرتا گیا کہ وہ گھڑی آپہو نچی کہ میں یہاں تھا اور وہ وہاں، اور ان کا بلا وہ آگیا ۔ یہ ١٦ستمبر١٩٩٢ ء کی صبح تھی کہ میری بیٹی نے نیو یارک سے فون کیا کہ ابھی ابھی پا کستان سے فو ن آیا ہے کہ مو لانا چچا کا انتقال ہو گیا ۔ یقین نہیں آیاکہ وہ ابھی تو نیو یارک تشریف لا ئے تھے میں بھی وہیں پہونچ گیا تھا، ان سے فیض حا صل کر نے اور ان کے پیچھے نما زیں پڑھنے ۔وہ میری ان سے آخری ملا قات تھی۔ تھو ڑی دیر میں میڈیا میں بھی خبر آگئی ۔ پھر ان کی تہجیزاور تکفین کی بھی خبر آئی کہ جنازے میں لا کھو ں آدمیوں نے شر کت کی ۔ اسی کی طر ف میں نے اپنی منقبت میں اشارہ کیا ہے کہ ان کی عظمت کا را ز ان کے بعدکھلا۔جبکہ ان کے جنازہ کو گھر سے دار العلوم امجد یہ تک پہنچنے میں صبح سے شام ہوگئی۔ جہاں پر انہیں اپنے پرانے رفیق حضرت علا مہ مصطفیٰ الازہری کے پہلو میں آسودہ خاک ہو نا تھا ۔

اب آپ پو چھیں گے وہ کیسے آدمی تھے ۔ مختصر جواب یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بہت ہی پختہ اور بہت ہی متقی انسان تھے۔ مگر رواداری انہو ں نے کبھی ترک نہیں فر مائی ۔ کبھی کسی کو نہیں ٹو کا کہ تم یہ کیو ں کر رہے ہو، ایسا کیو ں کر رہے، ہو ویسا کیوں کر رہے ہو؟ مسئلہ کسی نے پو چھا تو بتا دیا ،نہیں تو چشم پو شی سے کام لیتے، ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی ، وہ زاہد ِ خشک نہ تھے حس ِ مزاح بھی ان میں بے حد تھی۔ ایک مر تبہ میری بہو میرے ساتھ ان کے گھرگئیں ،وہ زنا نخانے میں چلی گئیں اور میں مولانا کے پاس ان کے کمرے میں چلا گیا ،مجھ سے پو چھنے لگے تمہا رے ساتھ کو ن آیاہے ؟میں نے کہا شبنم فر ما نے لگے شبنم اور دوپہر کو ۔،انکساری کا یہ عالم کے فیا ض کا وش ایڈو کیٹ انہیں پہچانتے نہ تھے،  جب مو لانا نورانی(رح) نے سنی کا نفرنس  دار العلوم امجدیہ میں اپنی جما عت اہل َسنت والجماعت قائم کرنے کے لیئے بلائی تو اس میں شرکت کے لیئے دارالعلوم امجدیہ وہ بھی میرے ساتھ میر پور خاص سے آئے، مو لا نا وہا ں تشریف فر ما تھے، فیاض کاوش نے مولانا سے کہا ذرا وہ کتاب سامنے جو الماری میں رکھی ہے اٹھا دیں۔ بجا ئے کسی شاگرد کو آواز دینے کے  مولانا خود  ہی اٹھے اور انہیں لاکر پیش کر دی ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ شیخ الحدیث مفتی وقار الدین صا حب ہیں تو بہت شر مندہ ہو ئے ۔ نورانی چہرا ،گندمی رنگ ،لمبا قد اور چھریرے بدن کے مالک تھے ،فر ماتے تھے کہ خوف ِخدا اور فربہی دونوں ساتھ نہیں رہتے ۔ اور اکثر وہ یہ حدیث سنا یا کرتے تھے کہ “ قیامت کے قریب ایسے علما ءہونگے جن کے پیٹ بڑھے ہو ئے ہو نگے ان سے بچنا “ بیوی بچو ں کے ساتھ بہت شفیق بہو بٹیوں کے ساتھ شفیق ، چھو ٹوں کے ساتھ مہر بانی کا سلوک اور بڑوں کے سامنے با ادب ۔ میں نے انکاکو ئی کام کبھی خلاف سنت نہیں دیکھا۔ ان کے ہا تھوں پربہت سے لوگ ایمان لا ئے۔ مگر کہیں ذکر نہیں کو ئی تشہیر نہیں ،اخباروں میں تصویر نہیں ۔وہ تصویروں سے بہت پر یشان ہو تے تھے ہر محفل میں پہلے سے ہی منع فر مادیتے تھے کہ میری تصویر نہ لی جا ئے ۔ مگر اخبار نویس اور بچے چھپ کر تصویر لے لیتے۔ عمو ما “نکاح کی تقریبات میں بچے بہت تنگ کرتے ۔ پریشان ہو تے اور فر ماتے کہ ہر بچے کے پا س تو کیمرہ ہے میں کس طرح بچو ں ، ادھر منہ کر تاہوں تو دوسرا ادھر سے تصویرلے لیتا ہے۔ یہ علم و عرفان کا سورج ١٦ستمبر ١٩٩٢ءکو ہمیشہ کے لیئے غروب ہو گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون ہ

Website | + posts
error

Enjoy this blog? Please spread the word :)